Header Ads Widget

Ticker

6/recent/ticker-posts

بزم انجم اقبال

  بزم انجم   اقبال

بزم انجم   اقبال

شاعر کا تعارف

    ڈاکٹرسر محمد اقبالؔ اردو اور فارسی کے مشہور مفکر اور فلسفی شاعر گذرے ہیں۔ وہ 9 ؍ نومبر 1877 ء کو موجودہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے مشہور شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کے آباء واجداد کشمیری تھے۔ اقبال کے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں ہوئی۔ اُن کے والد شیخ نور محمد نے اُن کی تعلیم و تربیت کیلئے انہیں سیالکوٹ کی مشہور شخصیت مولانا سید میر حسن کے سپرد کیا۔ اقبال کی زندگی پر اپنے استاد میر حسن کا بہت اثر ہا۔ اقبال کی اعلیٰ تعلیم لاہور میں ہوئی۔ جہاں سے انہوں نے 1897ء میں بی۔اے اور 1899 ء میں فلسفہ سے ایم۔اے کیا۔ اور ینٹل کالج لاہور میں عربی کے استاد مقرر ہوئے۔

     1903 ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ کے اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے۔ 1905ء میں اعلیٰ تعلیم کیلئے انگلستان گئے اور تین سال یوروپ میں قیام کیا۔ لندن میں بیرسٹر لاء اور جرمنی کے میونک یونیور سٹی سے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے ڈاکٹریٹ کے مقالہ کا عنوان Development of Meta Physics in Persia (ایران میں مابعد طبیعات کا ارتقاء )تھا۔یہ مقالہ لندن سے شائع ہو چکا ہے جرمن اور اردو میں بھی شائع ہوا۔
اقبال 27 ؍ جولائی 1908 ء کو لاہور واپس ہوئے اور وکالت شروع کی اسکے ساتھ گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ کی تعلیم بھی دیتے رہے بعد میں پروفیسری سے استفعیٰ دے دیا اور وکالت کو جاری رکھا۔
    اقبال ؔ کو بچپن ہی سے شعر گوئی سے دلچسپی تھی۔ اس زمانے میں آزادی ہند کی تحریک اپنی طفولیت کی منزل سے گذرہی تھی۔ اقبال نے پر جوش نظموں کے ذریعہ اس زمانے میں ہندوستانیوں کو انگریزوں کے خلاف متحد کرنا شروع کیا۔ ان کی نظمیں ’’ترانہ ہندی‘ نیا شوالہ‘ ہمالہ‘ پرندے کی فریاد‘ ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘ ہندوستان کی قومی شاعری کی بہترین مثالیں ہیں۔ ان اثر انگیز نظموں کے ذریعہ اقبال نے قومی یکجہتی کا تصور پیش کیا۔ یورپ سے واپسی کے بعد اقبال کے افکار و خیالات میں بڑی تبدیلی آئی۔ اب ساری دنیا کے انسان اُن کی شاعری کے مخاطب بن گئے تھے۔

    انہوں نے تمام انسانوں کو قوم ‘ نسل ملک اور زبان کے امتیازات سے بلند ہو کر بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کو اپنا نصب العین بنانے کی تعلیم دی۔ اسطرح انہوں نے شاعری کو اپنے خاص پیام اور تعلیمات کا ذریعہ بنایا۔ اقبال نے لوگوں کو حرکت اور عمل کی تلقین کی۔ خودی‘ عشق اور مرد مومن کا تصور پیش کیا۔ شاہین کو علامت کے طور پر استعمال کیا۔ 1923 ء میں حکومت ہند کی جانب سے ڈاکٹر اقبال کو ’’سر‘‘کا خطاب دیا گیا۔ اور اُن کے استاد میر حسن کو شمس العماء کا خطاب عطا ہوا۔21 اپریل 1938 ء کو اقبالؔ کا لاہور میں انتقال ہوا۔ اقبال کی شاعری کے چار مجموعے بانگِ درا‘ بالِ جبریل‘ ضربِ کلیم اور ارمغانِ حجاز شائع ہوچکے ہیں۔ اقبال کے کلام کے دنیا کی بیشتر زبانوں میں تراجم شائع ہوچکے ہیں۔ اقبالؔ کا کلام فلسفیانہ بصیرت‘ شاعرانہ حسن اور اثر انگیز کا ایک حسین امتزاج ہے۔

سورج نے جاتے جاتے شام سیہ قبا کو    طشت افق سے لے کر لالے کے پھول مارے
پہنا دیا شفق نے سونے کا سارا زیور    قدرت نے اپنے گہنے چاندی کے سب اتارے
محمل میں خامشی کے لیلائے ظلمت آئی    چمکے عروس شب کے موتی وہ پیارے پیارے
او دور رہنے والے ہنگامہ جہاں سے    کہتا ہے جن کو انساں اپنی زباں میں 'تارے
             محو فلک فروزی تھی انجمن فلک کی    
            عرش بریں سے آئی آواز اک ملک کی

اے شب کے پاسبانو، اے آسماں کے تارو!    تابندہ قوم ساری گردوں نشیں تمھاری
چھیڑو سرودایسا ، جاگ اٹھیں سونے والے    رہبر ہے قافلوں کی تابِ جبیں تمھاری
آئینے قسمتوں کے تم کو یہ جانتے ہیں    شاید سنیں صدائیں اہل زمیں تمھاری
            رخصت ہوئی خموشی تاروں بھری فضا سے
              وسعت تھی آسماں کی معمور اس نوا سے
حسنِ ازل ہے پیدا تاروں کی دلبری میں    جس طرح عکس گل ہو شبنم کے آرسی میں
آئینِ نو سے ڈرنا ، طرز کہن پہ اڑنا    منزل یہی کھٹن ہے قوموں کی زندگی میں
یہ کاروانِ ہستی ہے تیز گام ایسا    قومیں کچل گئی ہیں جس کی رواروی میں
آنکھوں سے ہیں ہماری غائب ہزاروں انجم    داخل ہیں وہ بھی لیکن اپنی برادری میں
اک عمر میں نہ سمجھے اس کو زمین والے    جو بات پا گئے ہم تھوڑی سی زندگی میں
            ہیں جذب باہمی سے قائم نظام سارے
            پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں


خلاصہ نظم
    شیخ محمد اقبالؔ(1877-1938) اردو کے مشہور شاعر گزرے ہیں۔ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے حرکت و عمل کا پیغام دیا۔ انہوں نے فلسفہ خودی کو پیش کیا اور مرد مومن کی صفات پیش کرتے ہوئے خواب غفلت میں ڈوبی ہندوستانی قوم کو عمل کا پیغام دیا۔ اقبال نے اس عہد میں آنکھ کھولی تھی جب کہ ہندوستان انگریزوں کا غلام تھا۔ اور غلامی کی زنجیر میں ڈوبی ہندوستانی قوم تعلیم میں پیچھے اور حرکت و عمل سے دور تھی۔ سیاسی‘سماجی اور تہذیبی تاریکی کے دور میں اقبال نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی یورپی ممالک کا دورہ کیا مغرب کی ترقی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ مغربی مفکرین کا گہرا مطالعہ کیا

     اور اردو میں اپنے خیالات پیش کرتے ہوئے مسلمانوں کو عام طور سے اور اہل ہند کو خاص طور سے خواب غفلت سے جاگنے کا مشورہ دیا۔ اقبال نے اکثر اپنی نظموں میں فطرت کے مناظر کو پیش کیا اور بہ طور تمثیل ان کی زندگی سے مثال لیتے ہوئے انسانوں کو سبق دینے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ نظم ــ’’بزم انجم‘‘ میں انہوں نے رات کی تاریکی میں آسمان پر چمکنے والے تاروں کی مثال دی ہے اور اس سے انسانوں کوسبق حاصل کرنے کی دعوت دی ہے۔
    نظم کے پہلے بند میں اقبال نے شام کا منظر پیش کیا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ سورج غروب ہوتے ہوتے شام کو سیاہ لباس پہنا جاتاہے۔ شام کے وقت جانب مغرب افق پر اس طرح لالی چھاگئی جیسے باغ میں لالے کے پھول ہو۔ ایسا لگ رہا تھا کہ آسمان کا مغربی کنارا سنہری زیور سے آراستہ ہوگیا ہو۔پھر رات آئی اور قدرت نے تاروں کی شکل میں چاندی کے زیور آسمان پر ٹانک دئے۔جب اندھیرا مکمل طور پر طاری ہوگیا تو تارے چمکنے لگے۔

    تاروں کی چمک سے ایسا لگ رہا تھا کہ شام کی دلہن نے اپنے لباس میں پیارے پیارے موتی ٹانک لیے ہوں۔شام کے سنہرے رنگ اور رات کی سیاہی میں تاروں کی چمک کے خوبصورت منظر کو پیش کرنے کے بعد شاعر اقبالؔ فطرت کے نظاروں سے بے خبر انسان کو یاد کرتے ہیں کہ شفق کی لالی اور رات کے اس خوبصورت منظر سے دور انسان انہیں تارے کہتا ہے۔رات پر تاروں کی انجمن جم جاتی ہے۔ تب آسماں سے ایک فرشتہ تاروں سے کہتا ہے کہ اے رات کے پاسبان تارو !تم سب آسمان پر بسنے والے معزز تارے ہو۔ ہو اس وقت تم کوئی ایسا نغمہ چھیڑو کہ زمین کے باشندے بیدار ہوجائیں۔تمہاری روشنی سے رات کے قافلے رہبری حاصل کرتے ہیں۔ زمین پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تم ان کی قسمتوں پر اثر انداز ہو اس لیے مجھے توقع ہے کہ وہ ضرور تم سے کچھ پیام یعنی نغمہ سنیں گے فرشتے کی بات سن کر ستاروں نے نغمہ شروع کیا۔ستاروں کے نغمے سے رات کی خاموشی ٹوٹی اور آسماں پر ان کی آواز چھا گئی۔
    نظم کے دو بندوں میں منظر نگاری اور تمثیل نگاری پیش کرنے کے بعد نظم کے تیسرے اور آخری بند میں اقبال تاروں کی زبانی انسانوں کو ربط باہمی اور حرکت و عمل کا پیغام دیتے ہیں۔ تارے کہتے ہیں کہ بند تاروں کی چمک دمک میں خدا کی قدرت کا جلوہ نظر آتا ہے۔ بلکہ خدا کا عکس تاروں میں اسی طرح نظر آتا ہے جس طرح ایک پھول کا عکس شبنم کے قطرے میں دکھائی دیتا ہے۔ تاروں کی زبانی اقبال زمین والوں کو اپنا پیغام دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جو قوم زندگی کی حقیقتوں اور جدید ترقی سے ڈرتی ہے ۔ حالات حاضرہ سے مطابقت نہیں رکھتی‘ وقت کے تقاضوں کو نہیں پہچانتی اور لکیر کی فقیر کی طرح قدیم رسم و راج اور پرانی باتوں پر اڑی رہتی ہے وہ قوم کبھی ترقی نہیں کرسکتی۔ کسی بھی قوم کے لیے یہ مشکل مرحلہ ہوتا ہے جب قدیم باتوں کو ترک کرنا اور جدید باتوں کو اپنانا ہوتا ہے ۔
     اقبال کہتے ہیں کہ زمانہ ہر وقت آگے بڑھتا رہتا ہے۔جو قومیں زمانے کا ساتھ نہیں دیتیں اوراپنی جگہ بے حس پڑی رہتی ہیں۔ان کے اس جمود کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں نکلتا کہ دوسری قومیں ان کو کچلتی ہوئی آگے بڑھ جاتی ہیں۔اقبال مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جو ستارے اس وقت ہماری نظروں سے اوجھل ہیں ہم ان کو بھی اپنی برادری میں شامل سمجھتے ہیں۔افسوس اس نکتے کو زمین والے اب تک نہیں سمجھے ۔ اور مختلف فرقوں اور ذاتوں میں بٹ کر کمزور ہوگئے ہیں جب کہ ہم اپنی تھوڑی سی زندگی میں اس بات کو سمجھ چکے ہیں۔یعنی آپسی اتحاد سے ہی ہمارا نظام قائم ہے۔ چنانچہ انسانوں کو بھی چاہیے کہ وہ ان ہی لوگوں کو اپنا نہ سمجھیں جو ان کی نظروں کے سامنے ہیں بلکہ ساری دنیا کہ انسانوں کو اپنا سمجھیں ۔انسانوں کا قومی نظام صرف اس وقت قائم رہ سکتا ہے کہ جب وہ جذب باہمی کے اصولوں پر عمل کریں۔ یعنی ایک دوسرے سے مل جل کر رہیں۔اس نظم میں اقبال نے ہندوستانیوں کو تنظیم اور ربط باہمی پر زور دیا ہے۔
مرکزی خیال: اقبال نے نظم ’’ بزم انجم‘‘ میں ستاروںکی زبانی بے عمل انسانوں کو حرکت و عمل کا پیغام دیا۔ زمانے کے تقاضوں کے ساتھ آگے بڑھنے اور باہمی اتحاد کے ساتھ زندگی میںکامیابی پانے کے اصول سے واقف کرایا۔ اقبال نے کہا کہ جس طرح آسمان پر لاکھوں تارے ایک نظام کے تحت برسوں سے چمک رہے ہیں اسی طرح زمین پر بسنے والے انسان بھی حرکت و عمل اور عہد حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر زندگی کے سفر میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
فرہنگ
    سیہ قبا        :    سیاہ لباس
    افق        :    شام کے وقت کا سنہرا آسمان
    طشت        :    بڑا لگن
    طشت افق        :    آسمان
    شفق        :    غروب آفتاب کے وقت کی لالی
    گہنے        :    زیورات
    لیلائے ظلمت    :    رات کی تاریکی
    عروسی شب    :    :    رات کی دلہن
    فلک فروزی    :    آسمان کی روشنی
    انجمن فلک        :    آسمان کی محفل
    عرش بریں        :    آسمان جہاں خدا کا تخت ہے
    پاسباں        :    محافظ۔ نگہبان۔رکھوالی کرنے والا
    تابندہ        :    روشن۔ چمکدار
    سرود        :    نغمہ۔راگ۔ایک قسم کا باجا
    تاب        :    برداشت
    جبیں        :    پیشانی۔ماتھا
    صدا        :    آواز ۔گونج
    دلبری        :    دل کو محو لینا۔ محبوبیت
    شبنم        :    اوس۔پھول یا ہریالی پر پڑنے والا قطرہ
    آرسی        :    آئینہ
    آئین نو        :    نیا قانون۔نیا دستور
    طرز کہن        :    پرانا طریقہ۔ پرانی عادت
    اڑنا        :    جمے رہنا۔ضد کرنا
    کٹھن        :    مشکل

I    بند مکمل کیجیے اور مشکل الفاظ کے معنی لکھیے۔

1سورج نے جاتے جاتے شام سیہ قبا کو    طشت افق سے لے کر لالے کے پھول مارے
پہنا دیا شفق نے سونے کا سارا زیور      قدرت نے اپنے گہنے چاندی کے سب اتارے
محمل میں خامشی کے لیلائے ظلمت آئی    چمکے عروس شب کے موتی وہ پیارے پیارے
    الفاظ            معنی
    سیہ قبا        :    سیاہ لباس
    افق        :    شام کے وقت کا سنہرا آسمان
    طشت        :    بڑا لگن
    طشت افق        :    آسمان
    شفق        :    غروب آفتاب کے وقت کی لالی
    گہنے        :    زیورات
    لیلائے ظلمت    :    رات کی تاریکی
    عروسی شب        :    رات کی دلہن
    
2    اے شب کے پاسبانو، اے آسماں کے تارو!    تابندہ قوم ساری گردوں نشیں تمھاری
    چھیڑو سرود ایسا ، جاگ اٹھیں سونے والے    رہبر ہے قافلوں کی تاب جبیں تمھاری
    آئینے قسمتوں کے تم کو یہ جانتے ہیں    شاید سنیں صدائیں اہل زمیں تمھاری
    الفاظ            معنی
    پاسباں        :    محافظ۔ نگہبان۔رکھوالی کرنے والا
    تابندہ        :    روشن۔ چمکدار
    سرود        :    نغمہ۔راگ۔ایک قسم کا باجا
    تاب        :    برداشت
    جبیں        :    پیشانی۔ماتھا
    صدا        :    آواز ۔گونج
    
    3    نظم ’’ بزم انجم‘‘ کا پسندیدہ بند لکھئے اور مشکل الفاظ کے معنی بھی لکھئے۔
حسن ازل ہے پیدا تاروں کی دلبری میں    جس طرح عکس گل ہو شبنم کے آرسی میں
آئین نو سے ڈرنا ، طرز کہن پہ اڑنا    منزل یہی کھٹن ہے قوموں کی زندگی میں
یہ کاروان ہستی ہے تیز گام ایسا    قومیں کچل گئی ہیں جس کی رواروی میں
آنکھوں سے ہیں ہماری غائب ہزاروں انجم    داخل ہیں وہ بھی لیکن اپنی برادری میں
اک عمر میں نہ سمجھے اس کو زمین والے    جو بات پا گئے ہم تھوڑی سی زندگی میں
            ہیں جذب باہمی سے قائم نظام سارے
            پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں
    الفاظ            معنی
    آئین نو        :    نیا قانون۔نیا دستور
    طرز کہن        :    پرانا طریقہ۔ پرانی عادت
    اڑنا        :    جمے رہنا۔ضد کرنا
    کٹھن        :    مشکل

II    پانچ سطروں میں جواب لکھئے۔

    1۔    شاعر نے شام کا منظر کیسے کھینچاہے۔

جواب:    اقبال نے اپنی نظم’’ بزم انجم‘‘ کے آغاز میں شام کا منظر بڑے ہی دلفریب انداز میں کھینچا ہے۔اقبال کہتے ہیں کہ سورج غروب ہوتے ہوتے شام کو سیاہ لباس پہنا گیا۔ شام کے وقت مغرب کی جانب افق پر اس طرح لالی چھاگئی جیسے باغ میں لالے کے پھول ہو۔ ایسا لگ رہا تھا کہ آسمان کا مغربی کنارا سنہری زیور سے آراستہ ہوگیا ہو۔پھر رات آئی اور قدرت نے تاروں کی شکل میں چاندی کے زیور آسمان پر ٹانک دئے۔جب اندھیرا مکمل طور پر طاری ہوگیا تو تارے چمکنے لگے۔تاروں کی چمک سے ایسا لگ رہا تھا کہ شام کی دلہن نے اپنے لباس میں پیارے پیارے موتی ٹانک لیے ہوں۔شام کے سنہرے رنگ اور رات کی سیاہی میں تاروں کی چمک کے خوبصورت منظر کو پیش کرنے کے بعد شاعر اقبال فطرت کے نظاروں سے بے خبر انسان کو یاد کرتے ہیں کہ شفق کی لالی اور رات کے اس خوبصورت منظر سے دور انسان انہیں تارے کہتا ہے۔

    2    قوموںکی زندگی میں کٹھن منزل کونسی ہے۔

جواب:    اقبال نے اپنی نظم’’ بزم انجم‘‘ میں تاروں کی مثال دیتے ہوئے زمین پر خواب غفلت میں ڈوبے انسانوں سے کہتے ہیں کہ قوموں کی زندگی میںکٹھن مرحلہ اس وقت پیش آتا ہے جب انہیں پرانی فرسودہ باتوں کو ترک کرنا پڑتا ہے اور نئی ترقی کو باتوں کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔ لوگ اپنے آباء و اجداد کی قدیم رسم و رواج کو ترک کرنا نہیں چاہتے ۔ جب کہ بدلتے زمانے کا تقاضہ انہیں ان رسوم کو ترک کرنے اور نئی باتوں کو اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اقبال نے اس مرحلے کو قوموںکی زندگی کا کٹھن لمحہ قرار دیا ہے۔

    3    تاروں کی زندگی میںکونسا راز پوشیدہ ہے۔

جواب:    اقبال نے اپنی نظم’’ بزم انجم‘‘ میںتاروں کی زندگی کو پیش کیا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ شب کی تاریکی میں تارے روشنی پھیلاتے ہیں۔ انہوں نے زندگی کا راز پالیا کہ سارے تارے ایک ہیں کوئی کسی سے کم زیادہ نہیں ہے۔ اور قدرت نے انہیں جس کام پر یعنی روشنی دینے کے کام پر مامور کیا ہے وہ پابندی سے اسی کام پا مامور ہیں۔ تاروں کی زندگی میں جذب باہمی کا راز پوشیدہ ہے کہ وقت واحد میں کچھ تارے نظر آتے ہیں لیکن سارے تارے ایک ہیں اور سب کا ایک ہی کام ہے۔ اسی طرح اقبال انسانوں کو سبق دیتے ہیں کہ ہم صرف اپنے قریب کے لوگوں کو اپنا نہ سمجھیں بلکہ ساری قوم ایک دوسرے سے متحد رہے آپسی میل جول اور بھائی چارے سے جب ہم آگے بڑھیں گے تو ترقی کریں گے ورنہ دوسری قومیں ہمیں کچل کر رکھ دیں گی۔

III    ایک لفظ یا جملے میں جواب لکھیے۔

     1۔    اقبالؔ کس شہر میں پیدا ہوئے۔
جواب:        اقبالؔ 9نومبر1877ء  کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔        
     2۔    اقبالؔنے کس کی بزم سجائی ہے۔
جواب:        اقبالؔ نے تاروں کی بزم سجائی ہے۔
    3۔    اقبالؔ کے کوئی ایک شعری مجموعے کا نام لکھئے۔
جواب:        بانگ درا۔
    4۔    حکومت نے اقبالؔ کو کس خطاب سے نوازا۔
جواب:        حکومت نے اقبالؔ کو سر کے خطاب سے نوازا تھا۔
    5۔    اقبالؔ کا انتقال کب ہوا۔
جواب:        اقبالؔ کا انتقال21اپریل 1938ء کو ہوا۔

IV    پندرہ سطروں میں جواب لکھیے۔

     1۔    علامہ اقبالؔ نے نظم’’ بزم انجم‘‘ میں کن خیالات کا اظہار کیا ہے۔
    2۔    نظم’’ بزم انجم‘‘ کا خلاصہ لکھیے۔

جواب:        (جواب کے لیے نظم بزم انجم کا خلاصہ دیکھیں۔)
    3۔    علامہ اقبال کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں۔
جواب:        (جواب کے لیے شاعر کے حالات کے تحت اقبال کے حالات زندگی دیکھیں۔)

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے